در جوانی ہو خزاں میں بھی بہارِ زندگی |
وقتِ پیری سبزہ و گل ، خارزارِ زندگی |
دل کو راحت دیں حسیں نظّارے گرد و پیش کے |
ہوں اگر حاصل ہمیں شیریں ثمارِ زندگی |
اشک گرتے ہوں ندامت کے اگر وقتِ سحر |
خود بخود دُھل جائے سب گرد و غبارِ زندگی |
کیا سُہانے دن تھے جب تھی باغ میں مَوجِ بہار |
خشک ہو کر اب تو گلشن بھی ہے بارِ زندگی |
بے قراری کا سبب ہے بھولنا تُجھ کو کہ دل |
یاد میں تیری ہی پاتا ہے قرارِ زندگی |
مےکدے میں جام پیتے ہیں تمہارے ہاتھ سے |
تا سرایت ہو رگ و جاں میں خُمارِ زندگی |
آئینہ شفاف طارق ہے بنا سارا جہاں |
کوئی دیکھے تو سہی نقش و نگارِ زندگی |
معلومات