آج کیا ہو گیا ہے تجھے جنوری
آج کیا ہو گیا ہے تجھے جنوری
کتنا بے تاب و مضطر تھا تو جنوری
اتنا ظالم نہ تھا تو کبھی جنوری
آج کیا ہو گیا ہے تجھے جنوری
آج کیا ہو گیا ہے تجھے جنوری
ایک خواہش تو پہلے ہی ماری گئی
جو بجی تھی وہ ساری کی ساری گئی
گرمئی عارضِ گل سے میں دور ہوں
میری سوزِ جگر سے وہ پیاری گئی
برف باری سے کم نا تری صرصری
آج کیا ہو گیا ہے تجھے جنوری
قصر والے بھی اب در بدر ہو گئے
راہ کے سب غریب اب کدھر ہو گئے
آہ کی گرمیاں چاہ کی آتشیں
سب کے سب کاش و اُف کے نذر ہو گئے
کتنی خاموش ہے یہ تری ساحری
آج کیا ہو گیا ہے تجھے جنوری
تجھ سے بہتر تو تھا ماہ وہ نوم بر
پھر دسمبر کی شامیں نہ تھیں اس قدر
ہلکی پھلکی سی چادر میں گذری سَحر
ایک تو ہے کہاں سے ہے لایا جگر
کتنا ظالم ستم گر ہے تو جنوری
آج کیا ہو گیا ہے تجھے جنوری
چاند بھی چھپ گیا بادلوں میں کہیں
چپ کے چپ کے سے رہتا ہے سورج کہیں
آہ تارے یہ شاید کہ سب ڈر گئے
تیری دامن میں آکے یہ سب مر گئے
کتنا بے باک سفاک ہے جنوری
آج کیا ہو گیا ہے تجھے جنوری
شام کی سرد لہروں پہ پروائی صر
برف کی تیز بارش میں بھینگا ہے در
تیرے آغوش میں ہم چلے آئے پر
جاں ہتھیلی پہ رکھ کر پہ جائیں کدھر
آہ کتنا کٹھن ہے تو اے جنوری
آج کیا ہو گیا ہے تجھے جنوری
چاۓ کی چسکیوں سے بھی محروم ہیں
گرمئی وصلِ جاناں سے محروم ہیں
سرد کی تیز لہروں سے مغموم ہیں
ترس کھاؤں یہ ہم پے کہ معصوم ہیں
کیسا پتھر صنم ہے تو اے جنوری
آج کیا ہو گیا ہے تجھے جنوری
اب کے لگتا ہے ایسا کہ مر جائیں ہم
صبح کی خوف موسم سے ڈر جائیں ہم
آگ کے ساتھ بیٹھے ٹھہر جائیں ہم
تیرے ظالم ہوا سے کدھر جائیں ہم
اتنی ٹھنڈی نگر ہے تو کیوں جنوری
آج کیا ہو گیا ہے تجھے جنوری
غالب ثانی ؔ
ابو اُمامـه شــؔاہ ارریاوی

1
73
شکریہ