آئے جو اُس کی بزم میں سرشار سے گئے
تیغِ نگاہِ یار کے اک وار سے گئے
ملنے کی پیاس ، مل کے اُسے اور بڑھ گئی
سمجھے تھے اب تو ، ہجر کے آزار سے گئے
دیکھا اسے تو دید کی خواہش سوا ہوئی
ہم اور ہو کے طالبِ دیدار سے گئے
اک عشق ہی بچا ہے اسے دیکھنے کے بعد
باقی تو سب مرَض دلِ بیمار سے گئے
کرتے رہے اشارہ وہ حُسنِ ازل کی اور
بل کب تھے اُس کے گیسوئے خمدار سے گئے
سوچا تھا اُس سے باتیں ہزاروں کریں گے پر
جب اُس کے سامنے ہوئے ، گُفتار سے گئے
جلوے کی ایک ، تاب نہیں لا سکے تھے جو
پھر اس کے بعد دید کی تکرار سے گئے
طارق جو اُس کے پیار کے رستے پہ چل پڑے
پھر جس طرف گئے ہیں کوئے یار سے گئے

0
23