خوب روؤں نے بھی خود آکے پذیرائی کی |
ہم نے تھوڑی سی جو بس قافیہ پیمائی کی |
آنکھوں آنکھوں میں ہوا درد ہمارا اس کا |
اس نے کچھ ایسی نظر سے ہے مسیحائی کی |
اجنبی تھا وہ مری اس پہ نگاہیں جو پڑیں |
اس نے خاموش نگاہوں سے شناسائی کی |
کارواں بڑھتا گیا آگے تھکے ہم بھی نہیں |
اس نے جب ساتھ دیا حوصلہ افزائی کی |
مرحلے اور بھی دنیا میں ابھی آنے ہیں |
ڈر گئے ہو جو کسی بات پہ رسوائی کی |
طارق اس شہر میں خاموشی سکوں دے کیونکر |
قید اب ہم سے یہ کٹتی نہیں تنہائی کی |
معلومات