خوب روؤں نے بھی خود آکے پذیرائی کی
ہم نے تھوڑی سی جو بس قافیہ پیمائی کی
آنکھوں آنکھوں میں ہوا درد ہمارا اس کا
اس نے کچھ ایسی نظر سے ہے مسیحائی کی
اجنبی تھا وہ مری اس پہ نگاہیں جو پڑیں
اس نے خاموش نگاہوں سے شناسائی کی
کارواں بڑھتا گیا آگے تھکے ہم بھی نہیں
اس نے جب ساتھ دیا حوصلہ افزائی کی
مرحلے اور بھی دنیا میں ابھی آنے ہیں
ڈر گئے ہو جو کسی بات پہ رسوائی کی
طارق اس شہر میں خاموشی سکوں دے کیونکر
قید اب ہم سے یہ کٹتی نہیں تنہائی کی

0
92