کرتا رہا جو روشنی سب کو عطا چلا گیا |
وہ جو تھا لعلِ بے بہا ، ہم کو ملا ، چلا گیا |
علم کی شمعِ نور سے ، روشن کئے ہیں بحر و بر |
وہ جو مثالِ ماہ تھا ، چمکا کیا ، چلا گیا |
جب بھی کہیں امیدّ کی دل میں ضیا تھی کم ہوئی |
تو رہ دکھا کے آس کی ، وہ مہ لقا ، چلا گیا |
وہ جو مجھے عزیز تھا، وہ جو مرے قریب تھا |
ملنے کا پھر سے آسرا ، اُس نے دیا ، چلا گیا |
اُس کا جو فیضِ عام تھا ، سِحْر سے پُر کلام تھا |
جس نے بھی جب سُنا اُسے، سُنتا سَدا چلا گیا |
سینے پہ سب کے غم لئے کتنے ہی دُکھ الم لئے |
بن کے رہا دل کی دوا، تھا با وفا ، چلا گیا |
اس کو نہ بھول پائیں گے ، وہ تھا دلوں کا ، بادشاہ |
دے کے سکوتِ شب میں وہ ، ایک صدا چلا گیا |
فانی ہے یہ جہاں یہاں ، کون رہا ہے دیر تک |
اس کا مقام و مرتبہ ، کس نے کہا ، چلا گیا |
طارق اسی کا فیض ہے ، ہم ہوئے درد آشنا |
دے کے ہمیں خلوصِ دل سے جو دعا ، چلا گیا |
معلومات