کہتے رہے ہیں لوگ تو اچھا نہیں کیا
ہم نے کبھی ضمیر کا سودا نہیں کیا
کھائے ہیں جان بوجھ کے بھی ہم نے کچھ فریب
پھر بھی انہیں گِلہ ہے بھروسا نہیں کیا
معصومیت پہ ان کی بھی قربان جائیے
کہتے ہیں قتل جب کیا چرچا نہیں کیا
ہم نے بھی یوں تو زندگی میں دُکھ اُٹھائے ہیں
پر ہائے ہائے کر کے تماشا نہیں کیا
ہم نے کسی کی جب بھی اطاعت قبول کی
پھر انحراف اس سے گوارا نہیں کیا
آسانیاں ہمیشہ میسّر نہیں رہیں
حالات کا مگر کبھی شکوہ نہیں کیا
بنیاد پر برابری کی ہم نے بات کی
جھُک کر کسی کو قبلہ و کعبہ نہیں کیا
طارق ہیں عیب ہم میں کئی جانتے ہیں ہم
لیکن کسی کے ساتھ بھی دھوکہ نہیں کیا

0
66