یہ کیسا دَور ہے ہر موڑ پر مشکل سے گزرے ہیں
انہیں رستہ نہیں ملتا جو ہر منزل سے گزرے ہیں
جسے پا کر طبیعت اور بھی بے چیَن ہو جائے
اسے کھو کر سمجھ آئی عجب حاصِل سے گزرے ہیں
گئے گزرے زمانوں کا تسلسل یاد جب آئے
تو پاگل دِل سمجھتا ہے تری محفل سے گزرے ہیں
کبھی جس راستے پر کل دلِ افسردہ زخمی تھا
وہاں سے آج بھی گزرے تو کچھ گھائل سے گزرے ہیں
کئے ماؤف عقل و دل ہوائے باد و باراں نے
تمہیں اے کشتیو بتلاؤ کس ساحل سے گزرے ہیں
نہ تم کو بھول سکتا ہوں نہ گھر کی ذِمّے داری کو
بتا اے جبر کتنی بار اس مقتل سے گزرے ہیں
مسائل کے جہنّم کا جسے ادراک ہی نہ ہو
اسے کیا عِلم سب انساں اسی جنگل سے گزرے ہیں
جو گلیوں میں پڑے سڑتے ہیں بے گور و کفن لاشے
خطا اُن کی ہے کیا جو خنجرِ قاتل سے گزرے ہیں
بنے گا زائچہ امید جب اس زندگانی کا
کھُلے گا راز اس دنیا سے لا طائل سے گزرے ہیں

0
46