حسن کو دیکھ کے جب عشقِ بتاں بولتا تھا
کوئی چپکے سے مرے دل میں نہاں بولتا تھا
جب یقیں مجھ کو نہیں تھا تو گماں بولتا تھا
کیا تھا مقصد مرے آنے کا یہاں بولتا تھا
آئنہ پھینک دیا توڑ کے باہر میں نے
سچ مرے سامنے کر کے وہ عیاں بولتا تھا
دیکھ کر اپنی ہی تصویر کو حیران تھا میں
میرا ہر نقش مصوّر کی زباں بولتا تھا
قائلِ حسن فقط میں ہی نہ تھا دنیا میں
مبتلا عشق میں ہرپیر و جواں بولتا تھا
وہ مرے سامنے آیا تو میں کچھ کہہ نہ سکا
یوں تو ہر ایک کے آگے میں رواں بولتا تھا
چاند سورج بھی ہوئے ماند تھے اس کی خاطر
آسماں اس کے لئے بن کے نشاں بولتا تھا
تہلکہ نوکِ قلم سے تھا مچایا اس نے
اس کی باتوں میں سحر تھا وہ جہاں بولتا تھا
دیکھ کر حُسنِ بیاں ، حسن کا قائل جو ہوا
وہ فقط سنتا تھا اس کی، وہ کہاں بولتا تھا
ہم بھی گھائل ہوئے طارق ہیں ان ہی نظروں کے
جن کی تعریف میں یہ کون و مکاں بولتا تھا

0
88