اے ساقئی لاہوت نئی شمع جلا دو
الفت کی لطافت سے کوئی جام پلا دو
بڑھتے ہوئے آلام سے ہر گز نہیں شکوہ
اک طبقہ ہی مخصوص ہے کیوں اتنا بتا دو
عادل کی عدالت میں کھڑا شک زدہ ملزم
ثابت نہیں الزام مگر جیل کرا دو
اچھّا نہیں الفت تو چلو اپنی سی کر لو
گر شک ہے مری بات میں تو جی سے مٹا دو
ہر دَور میں ہر چیز کا معیار ہے دَولت
بہتر ہے غریبوں کے صنم خانے جلا دو
سب نے مجھے چھوڑا ہے تو تم کس لئے چُپ ہو
وہ سامنے رکھُی ہوئی تصویر ہٹا دو
مَیں الفت و چاہت میں نہیں شرط کا پابند
اس دعوے میں غلطی ہے تو جو چاہو سزا دو
افسوس مری باتوں میں ہے تلخی کا عُنصر
اپنے لب شیریں سے انہیں میٹھا بنا دو
مَیں نا خوش و بیزار ہوں مرمر کی سِلوں سے
میرے لئے مِٹّی کا حرم اور بنا دوٓ

0
54