راحتِ دِل کو تو سینے سے لگا رکھا ہے
جانِ جاں کو ہم نے پلکوں پہ بٹھا رکھا ہے
وہ کیا جانے گا مرا حالِ دِل جس نے
درِ غیر پر اپنا سر جھکا رکھا ہے
داغِ دل قاتل چاہت ہی کی عطا ہے
ہر اک داغ کو سینے میں چھپا رکھا ہے
بن مانگے بھرے ہے جو دامن میں موتی
اُس خدا کو ہی تو ہم نے دل میں بسا رکھا ہے
جلا شمع کی طرح وہ طاقِ عبرت میں
جس نے ظلم و ستم دنیا میں روا رکھا ہے
ہر گھر جنت ہو جو خوشی چہکے مہکے
فخر نے اب گھروں کو دوزخ بنا رکھا ہے
ہم کو رونے دھونے کا بھی سلیقہ نہیں
رونا رلانا تو شمع پہ اُٹھا رکھا ہے

0
58