راحتِ دِل کو تو سینے سے لگا رکھا ہے |
جانِ جاں کو ہم نے پلکوں پہ بٹھا رکھا ہے |
وہ کیا جانے گا مرا حالِ دِل جس نے |
درِ غیر پر اپنا سر جھکا رکھا ہے |
داغِ دل قاتل چاہت ہی کی عطا ہے |
ہر اک داغ کو سینے میں چھپا رکھا ہے |
بن مانگے بھرے ہے جو دامن میں موتی |
اُس خدا کو ہی تو ہم نے دل میں بسا رکھا ہے |
جلا شمع کی طرح وہ طاقِ عبرت میں |
جس نے ظلم و ستم دنیا میں روا رکھا ہے |
ہر گھر جنت ہو جو خوشی چہکے مہکے |
فخر نے اب گھروں کو دوزخ بنا رکھا ہے |
ہم کو رونے دھونے کا بھی سلیقہ نہیں |
رونا رلانا تو شمع پہ اُٹھا رکھا ہے |
معلومات