کہتے ہو ، چاہتے تھے جو ، کرنے نہیں دیا
خود کو تمہارے ہاتھ سے مرنے نہیں دیا
تم آگ کے کنارے پہنچ کر بھی بچ گئے
یوں چاہتوں نے تم کو بکھرنے نہیں دیا
دیکھا تو ہو گا آئنہ تم نے بھی بارہا
تاریکیوں نے تم کو سنورنے نہیں دیا
جلوہ دکھا کے اُس نے منوّر کیا جہاں
رُخ تم نے موڑا ، دل کو نکھرنے نہیں دیا
سیکھا ہے کس نے تیرنا ساحل پہ بیٹھ کے
پانی میں کس نے تم کو اترنے نہیں دیا
تھی فصلِ گل بھی آئی لئے ایک رُت نئی
منظر میں تم نے رنگ ہی بھرنے نہیں دیا
کہتے ہو چھوڑ کر ہمیں آگے نکل گئے
تم نے ہی اپنے گھر میں ٹھہرنے نہیں دیا
طارق تو آسمان کی وسعت کو پا گیا
تم نے قدم زمیں پہ جو دھرنے نہیں دیا

34