رُخِ خوباں بھی آخر ایک دن تو ڈھل ہی جائے گا
کہاں روکے رکے گا بالیقیں وہ دن بھی آئے گا
سبھی عیش و نشاط و دل لگی بس چندے مہماں ہیں
یہ ایسا بحر ہے جسمیں سفینہ ڈُوب جائے گا
تہہ و بالا کرے گا محفلِ دنیا کی رنگینی
پھر اسکے بعد بھی وہ اک نئی بستی بسائے گا
نوازش مہربانی شکریہ توضیعِ لفظی ہے
مگر اخلاص سے روٹھا ہؤا بھی مان جائے گا
ابھی رازِ دروں ہے پر اسی گردش میں ہے وہ دن
زمیں بھی کانپ اُٹھے آسماں بھی تھر تھرائے گا
اُدھر فرمانِ اللّہ اس طرف ناکارہ و عاجز
قبولِ توبہ ہو پائی تو دائم مسکرائے گا
ستائش غمزہ و ناز و ادا آدم کی کمزوری
بچا ہے کون اس سے باخدا نا بچ ہی پائے گا

36