اگر وہ آسماں ہوتے تو مَیں اُن کی زمیں ہوتا
اگر ایسا نہ کر سکتا تو پھر زیرِ زمیں ہوتا
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کبھی ایسا نہ کر سکتا اگر پُختہ یقیں ہوتا
تقابل کا کروں دعویٰ یہ ہمّت ہے کہاں میری
اگر ایسا ہی ممکن تھا تو پھر تم سے حسیں ہوتا
دلوں کی دوریاں بھی ہیں محلّے بھی ہیں دُوری پر
مقدّر یاوری کرتے تو تیرا ہم نشیں ہوتا
اگر باہم تقابل ہو کسی اجلے سے کاغذ پر
مَیں اُن کی خوبیاں لکھتا وہ میرا نکتہ چیں ہوتا
غریبوں مفلسوں کی بھیڑ ہے گلیوں میں چَوکوں میں
کہیں اچھّا تھا آدم زاد لوہے کی مشیں ہوتا
کسی نے لکھ دیا ہے صنفِ نازک جھوٹ لکھّا ہے
کبھی قیدِ مسلسل سے رہائی کا یقیں ہوتا

0
56