راہ تکتی ہے دل کی تنہائی
کب سے ٹوٹی پڑی ہے شہنائی
وہ مری روح سے لپٹتی ہے
کیسی پوشاک تونے پہنائی
ان کا جلوہ کہیں ہوا ہوگا
آنکھ میں برق سی ہے لہرائی
دم بخود ہیں کمالِ قدرت سے
دیکھ کر ان کی بزم آرائی
غم سے تیرے بہار ہے جاناں
پھول بن کر ہے شام مہکائی

65