آئینہ دیکھ کے چہرہ مرا حیراں سا لگے |
خود مجھے نقشۂ ایّامِ پریشاں سا لگے |
گاؤں کے لوگ روانہ جو ہوئے شہروں کو |
دیکھ کر خالی مکاں ، اب ہوا ویراں سا لگے |
وعظ کرنا بڑا آسان ہے ، کرنا مشکل |
مفتئ دین کو فتویٰ بڑا آساں سا لگے |
مجھ کو اس شہر میں حسرت ہی رہی عرصے سے |
کوئی منبر پہ کھڑا شخص بھی انساں سا لگے |
اب تجھے شہر کے لوگوں سے توقع کیا ہے |
شہر کا شہر ہوا جب سے بیاباں سا لگے |
آسماں ایک نیا اور زمیں بھی ہے نئی |
پھر فلک پر ہوا روشن مہِ تاباں سا لگے |
رونقیں بزم کی دیتی ہیں دکھائی پھر سے |
پھر ملاقات کا ہوتا ہوا ساماں سا لگے |
اس نے آنے کے لئے مجھ کو بھی دعوت دی ہے |
پورا ہوتا ہوا اپنا کوئی ارماں سا لگے |
طارق اس بزم میں آ کر جو خوشی تُجھ کو ملی |
اب تو چہرے سے عیاں درد کا درماں سا لگے |
معلومات