میری تصویر گرا کر جو اٹھائی اس نے |
مجھ کو لگتا ہے مری خاک اڑائی اس نے |
سب رقیبوں نے مری خوب اچھالی عزت |
بات جب ختم ہوئی گرہ لگائی اس نے |
مَیں نے اب تک تو کوئی چیز نہ مانگی اس سے |
پھر بھی ہر بار دیا دردِ جدائی اس نے |
بر سرِ راہ مجھے غور سے دیکھا جب تو |
مجھ کو لگتا ہے مری رُوح چرائی اس نے |
بھا گئی ہو کوئی معصوم سی صورت جس کو |
ایسے جانباز کو ٹھہرایا قصائی اس نے |
مجھ سے اچھّا مرا ہم پیشہ و مشرب نکلا |
راہ میں چلتے ہوئے پکڑی کلائی اس نے |
نرخ لے کر بھی ترازو کو ذرا چھیڑ دیا |
مال کو تولنے میں کسر لگائی اس نے |
ساری دنیا میں غریبوں کا طرفدار کہاں |
جب بھی لیڈر سے کہا دھونس جمائی اس نے |
معلومات