لَوحِ نصیب کیسی عجب چال چل گئی
رستے کی ابتدا میں ہی منزل نکل گئی
دیکھا مجھے جو راہ میں شرما کے رہ گئی
پہلے وہ لڑکھڑائی گِری پھر سنبھل گئی
جھُک کر کیا سلام بڑے احترام سے
مَیں کچھ نہ کہہ سکا تو چھُری دل پہ چل گئی
آئے ہو بن سنور کے مگر یہ تو سوچتے
دورِ جوانی لد گیا دنیا بدل گئی
زلفیں بکھیرے آنا تھا میدانِ حشر میں
شُکرِ خدا کہ آئی بلا سر سے ٹل گئی
دنیا کی زندگی بھی عجب چیستان ہے
عقدہ کھُلا تو مَوت کے سانچے میں ڈھل گئی

0
42