زمانے میں ہوں میں لیکن زمانے کا نہیں ہوں
میں ہوں اس جسم کے اندر مگر اس کا نہیں ہوں
یہاں موجود ہوں اس بات پر حیران ہوں میں
میں اک زندہ حقیقت ہوں فسانے کا نہیں ہوں
دکھوں کی آگ نے مجھ کو جلایا ہے ہمیشہ
سلگنے کا نہیں ہوں اب جلانے کا نہیں ہوں
یہ عبرتناک چہرہ ہے ذرا مجھ پر نظر کرنا
مثال اپنی بنانی ہے چھپانے کا نہیں ہوں
زباں پر مہر ہے اور انگلیاں کب کی قلم ہیں
مری جو آپ بیتی ہے سنانے کا نہیں ہوں
بتا دو شاہ کو جا کر مرا اب فیصلہ ہے
کہ میں اب اپنی گردن کو جھکانے کا نہیں ہوں
تم اپنے گھر کو لوٹو اور بس خاموش ہو جاؤ
مجھے سولی پہ چڑھنا ہے بچانے کا نہیں ہوں

0
75