دل کی تنہائی کہیں مار نہ ڈالے مجھ کو
یہ تمنّا ہے کہ تُو اپنا بنا لے مجھ کو
ٹوٹ کر جب میں بکھر جاؤں کبھی وقت کے ساتھ
تیری یادوں کا کوئی لمحہ بچا لے مجھ کو
پھول سے مجھ کو بھلا شکوہ کوئی کیسے ہو
رنگ بدلے تو وہ خوشبو میں بسا لے مجھ کو
میری ناکامی پہ ڈھارس تُو بندھائے میری
ہوں جو مایوس تو سینے سے لگا لے مجھ کو
تُو نے ہر موڑ پہ بچوں کی طرح پیار دیا
تو ہی ماؤں کی طرح آج بھی پالے مجھ کو
تُو نے طوفانوں میں اب تک مجھے گرنے نہ دیا
آج تک یہ نہ ہوا تُو نہ سنبھالے مجھ کو
وقت کے ساتھ بدل جاتی ہے دنیا لیکن
دور جاؤں میں اگر پاس بُلا لے مجھ کو
جھولی پھیلائے ترے سامنے آیا طارق
مجھ کو امیّد نہیں تُو کبھی ٹالے مجھ کو

71