بہت سے تار ٹوٹے اور اب میں ساز سمجھا ہوں |
وہ لَے جب روح میں اتری میں تب پرواز سمجھا ہوں |
مجھے لگتا ہے اگلا عشق میرا آخری ہو گا |
بہت سے درد سہہ کے عشق کے اب راز سمجھا ہوں |
اشارے پیار کے مجھ کو بہت مہمل سے لگتے تھے |
بہت کچھ کھو کے اب آخر نگاہِ ناز سمجھا ہوں |
نہ تھا جب عشق تو میری سماعت ڈھال بنتی تھی |
اب اس کی جنبشِ ابرو کی بھی آواز سمجھا ہوں |
مجھے اب ختم ہونا ہے نجانے کیوں میں سمجھا تھا |
جسے میں ختم سمجھا تھا اسے آغاز سمجھا ہوں |
معلومات