نبی کے کرم پر لگی یہ نظر ہے
اسی دھن میں جاری جہاں کا سفر ہے
نہیں فکرِ امروز و فردا نہیں ہے
سخی کے جو ٹکڑوں پہ اپنی گزر ہے
انہیں کے ہیں آساں جہاں بھر میں رستے
نبی پاک جن کا حسیں چارہ گر ہے
وہ ہی چہرہ دائم دلی آرزو ہے
نہ جانے مقدر میں کب یہ سحر ہے
بہار آئے ایسی ہو منظر سہانا
نبی کے لیے اب حزیں آنکھ تر ہے
کرم ہو اے آقا یہ جھولی ہے خالی
یہ بھی جان مانگے عطا کی نظر ہے
سدا چاہے محمود بطحا میں رہنا
سخی کے کرم پر یہ اب منحصر ہے

41