جو سایہ دار تھے کہاں اب وہ شجر گئے
آنکھوں میں جو حسین تھے منظر کدھر گئے
افسانہ کیا سنائیں حقیقت بیاں کریں
کھوئے گئے کچھ ایسے جہاں میں کہ مر گئے
ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں معجزے
دل کتنے جن کو دیکھ کر ایماں سے بھر گئے
مقبول ہو گئے ہیں ہمارے وہی عمل
جو بے غرض کسی کی محبّت میں کر گئے
خیرہ نگاہ ہوتی تھی جن کی چمک سے وہ
مٹی میں ایک دن سبھی لعل و گہر گئے
وہ پیڑ جو لگا کے گئے اپنے ہاتھ سے
خود کتنے باغبان وہ کھا کر ثمر گئے
اک حادثہ نہیں ہے فقط زندگی یا موت
ہم امتحاں میں روز ہی شام و سحر گئے
طارق تمہیں نہ مل سکا اب تک بھی یہ سبق
کتنے بچے ہیں دن یہاں کتنے گزر گئے

0
52