پیار کا دل مرا بھکاری ہے
پیار کی ہی اسے خماری ہے
پیار میں فیصلہ نہیں کرتا
یہ عدالت تو فوجداری ہے
روز اس کی گلی میں جاتا ہوں
جانے کیسی بے اختیاری ہے
پیار مجھ سے وفا عدو سے ہے
میری ہر چیز ہی ادھاری ہے
موت سے آج بچ گیا کیسے
گھات میں زندگی شکاری ہے
میری میت پہ بھی نہیں آیا
آخری زخم یادگاری ہے
قرض رکھتا تھا جان پر شاہدؔ
اُس نے یوں زندگی گزاری ہے
ق
کتنے چہرے میں اب بدلتا ہوں
اب تو مشکل یہ خودشماری ہے
شہر میرا منافقوں کا ہے
سانس لینا یہاں پہ بھاری ہے
روز کرتب نئے دکھاتا ہے
اپنا سلطان تو مداری ہے
ساری دولت سمیٹ لی اس نے
اپنے حصے میں ریزگاری ہے
اپنے سلطان کا محل دیکھو
دل کا پھر بھی مگر بھکاری ہے
لوٹ کر لے گیا وطن کو جو
اس پہ لوگوں کی انحصاری ہے
میرے لوگو یہ کیا کیا تم نے
میری پہچان شرمساری ہے
خوش نہ ہو آج اپنے دشمن پر
کل کلاں کو تمھاری باری ہے

0
47