مرے نصیب کے کھاتے کو کیوں سیاہ کیا
یہاں میں تھا ہی نہیں میں نے کیا گناہ کیا
عمر گذر گئی بس دشمنی نبھاتے ہوئے
ملا تو کچھ بھی نہیں خود کو ہی تباہ کیا
مگن تھے لوگ یہاں کام میں مگر میں نے
کیا تو کچھ بھی نہیں عشق بے پناہ کیا
بدل کے بھیس فقیروں کا شہر میں اس کے
جس سے بھی ہاتھ ملایا اسے ہی شاہ کیا
پہلے اس سے کہ کوئی مجھ کو مارتا شاہد
خود کو مار کر خود کو ہی پھر گواہ کیا

64