گرے جو آنکھ کی جنبش سے تارا دیکھ لیتا ہوں
بھری محفل میں ڈھونڈے جو سہارا دیکھ لیتا ہوں
میں اپنی مشکلوں کا حل کسی سے کیوں بھلا پوچھوں
بھنور میں جب ہو کشتی میں کنارا دیکھ لیتا ہوں
زمانے میں ہوئے رسوا ہیں اکثر لوگ باتوں سے
میں نظروں میں چھپا اکثر اشارا دیکھ لیتا ہوں
بڑھاتا ہے کوئی جو ہاتھ اس کو تھام لیتا ہوں
ہے میری دوستی کس کو گوارا دیکھ لیتا ہوں
گماں کرتا ہے وہ رکھتا ہوں میں اس کو خیالوں میں
اسے لیکن میں سپنوں میں تو سارا دیکھ لیتا ہوں
میں اکثر بھول جاتا ہوں سبق اس زندگانی کا
مگر ہر روز میں پڑھ کر سپارہ دیکھ لیتا ہوں
مجھے طارق نہیں کوئی بھی رغبت اس سیاست سے
مگر خبریں کبھی قسمت کا مارا دیکھ لیتا ہوں

79