گلوں سے باتیں کبھی ہم بھی رو برو کرتے
نذر یہ لمحے یوں گیسوئے مشک و بو کرتے
چراغ شب میں جلانے کو حسرتیں من کی
جبیں ، جگر سبھی اپنا لہو ، لہو کرتے
لٹا کے تجھ پہ دل و جاں خوشی سے سب اپنا
کسی حبیب کی اور ہم نہ آرزو کرتے
حجاب ہم بھی حقیقت سے ہر اٹھا دیتے
نہ لوگ بیٹھ کے شکوہ ء چارہ جو کرتے
رقیب سے نہ شکایت کسی کو بھی ہوتی
نہ ذکر جام و ساقی ، نہ پھر سبو کرتے
اگر ہمیں بھی کبھی ملتی ہجر سے فرصت
شکستہ روح کے زخموں کو ہم رفو کرتے
جمال یار سے جب گنگ سب زمانہ تھا
تماشا ایسے میں کیا شاہد چار سو کرتے

0
72