جو اس نے بانٹ دیے روح کے خزانے تھے
اسے تو ہر جگہ دنیا میں وہ لُٹانے تھے
وہ لے کے آ گیا موسم کے بیج ہاتھوں میں
زمین دیکھ کے عمدہ کہیں لگانے تھے
دیا ہے اس نے یہ پیغام ساری دنیا کو
کہ اس نے رُوٹھے ہوئے لوگ سب منانے تھے
نہ آسکے تمہیں ملنے تو کچھ سبب ہو گا
تمہارے پاس تو آنے کے سو بہانے تھے
ہم آتے جاتے ملاقات کرلیا کرتے
ہماری زندگی میں ایسے دن بھی آنے تھے
دِکھا ہے چاند تو ہم چل پڑے ہیں ساتھ اس کے
ستارے یوں بھی نہیں اس کے ساتھ جانے تھے
خوشا کہ وقت ملا ہے ہمیں یہ قسمت سے
کہ انتظار میں جس کے کئی زمانے تھے
مسیحا آگیا طارق بپا قیامت ہے
اسی نے آکے تھے مُردہ جو دل جِلانے تھے

70