کیا پوچھتے ہو حال دلِ خستہ زار کے
دیکھی ہے مَوت زندگی کے دن گزار کے
وہ نازشِ دوام کہ خِیرہ ہوئی نگاہ
دیکھا ہے ان کو خواب میں نذریں اتار کے
گر مل گئے تو پھیر لی نفرت سے چشمِ ناز
تدفین پر دکھاوے کو بوسے مزار کے
گُزری ہے زندگی ترے قول و قرار میں
وعدوں کی آڑ میں کئے وعدے فرار کے
بچّوں کی بھوک میں کبھی حاذق طبیب میں
بیچا ہے جسم ماں نے کئی بار ہار کے
جب آئی لب پہ بات تو ہمّت نہیں ہوئی
واں ٹھاٹھ باٹ اُن کے یاں کپڑے ادھار کے
قحطُ الرجال میں بھی کئی ایسے لوگ ہیں
دنیا خراب کر لی ہے عقبیٰ سنوار کے
عمرِ عزیز غفلتوں میں ڈھل گئی امید
بیٹھے ہوئے ہیں راہ پہ جھولی پسار کے

0
55