یہ نظارے مصور کی بنی تصویر لگتے ہیں
کتابِ زندگانی کی لکھی تفسیر لگتے ہیں
یہ غزلیں گیت نغمے جو کہ بکھرے ہیں فضاؤں میں
سراپا حُسنِ کامل کی مجھے تحریر لگتے ہیں
چمن میں غنچہ و گل ، رنگ و بُو پھیلے ہیں جتنے بھی
مرے محبوب کے رنگوں کی ہی تشہیر لگتے ہیں
فلک پر جو ستارے ، روز و شب رہتے ہیں گردش میں
مجھے کون و مکاں کے یہ کوئی شہتیر لگتے ہیں
انہیں دیکھا تو یہ احساس بدلا ہے یقیں میں ، اب
مجھے تو وہ مرے خوابوں کی ہی تعبیر لگتے ہیں
ستم اب تک ہوئے جتنے خدا کے نیک بندوں پر
خدا ہی کی مجھے اعلیٰ کوئی تقدیر لگتے ہیں
یقیناً اب کرم کا حکمِ سلطانی ہوا ہو گا
فرشتے اب کوئی کرتے ہوئے تدبیر لگتے ہیں
نہ جانے کیا گراں گزرے گا ان کی طبعِ نازک پر
نہ طارق ، کچھ کہو پہلے ہی وہ دلگیر لگتے ہیں

4
365
چمن میں غنچہ و گل ، رنگ و بُو لائے ہیں جتنے بھی
مرے محبوب کے رنگوں کی ہی تشہیر لگتے ہیں
لاۓ ہیں؟ کس نے لاۓ ہیں - ابہام ہے

انہیں دیکھا تو یہ احساس بدلا ہے یقیں میں ، وہ
اچانک مل گئی جو خواب کی تعبیر لگتے ہیں
وہ کا تعلق آخری کے لگتے ہیں سے بنتا ہے تو یہ تعقیدِ لفظی کا عیب ہے

سیاست میں سنا تھا ذکر لوٹوں کا وہ اب بھی ہیں
کبھی چمچے جو کہلاتے تھے ، اب کفگیر لگتے ہیں
مرے کچھ مہرباں نالاں ہیں اتنے ڈاکٹر سے اب
حکیموں کے سبھی نسخے انہیں اکسیر لگتے ہیں

یہ دونوں اشعار اس غزل کے مزاج سے میچ نیہیں کرتے - انہیں نکال دیں تو غزل کا تاثر بہتر ہو گا

0
تبصرے کا بہت شکریہ جناب ارشد راشد صاحب!
آپ نے اچھے مشورے دئیے ہیں ۔میں نظرِثانی کرتا ہوں
جزاک اللہ خیراً

0
مرے محبوب کے رنگوں کی ہی تشہیر لگتے ہیں
واہ کیا خوبصورت اپروچ ہے

0
بہت شکریہ جناب خواجہ امّید محی الدین صاحب! بہت ممنون ہوں

0