یہ نظارے مصور کی بنی تصویر لگتے ہیں |
کتابِ زندگانی کی لکھی تفسیر لگتے ہیں |
یہ غزلیں گیت نغمے جو کہ بکھرے ہیں فضاؤں میں |
سراپا حُسنِ کامل کی مجھے تحریر لگتے ہیں |
چمن میں غنچہ و گل ، رنگ و بُو پھیلے ہیں جتنے بھی |
مرے محبوب کے رنگوں کی ہی تشہیر لگتے ہیں |
فلک پر جو ستارے ، روز و شب رہتے ہیں گردش میں |
مجھے کون و مکاں کے یہ کوئی شہتیر لگتے ہیں |
انہیں دیکھا تو یہ احساس بدلا ہے یقیں میں ، اب |
مجھے تو وہ مرے خوابوں کی ہی تعبیر لگتے ہیں |
ستم اب تک ہوئے جتنے خدا کے نیک بندوں پر |
خدا ہی کی مجھے اعلیٰ کوئی تقدیر لگتے ہیں |
یقیناً اب کرم کا حکمِ سلطانی ہوا ہو گا |
فرشتے اب کوئی کرتے ہوئے تدبیر لگتے ہیں |
نہ جانے کیا گراں گزرے گا ان کی طبعِ نازک پر |
نہ طارق ، کچھ کہو پہلے ہی وہ دلگیر لگتے ہیں |
معلومات