شعور لا شعور کی یہ کیسی داستان ہے
مکان لامکان اک ہمارا امتحان ہے
سمجھ سکا ہے کون اِس کو سرخرو ہوا ہے جو
خبر نہیں کہاں کوئی بلائے نا گہان ہے
سنو تو ہم نے جیسے تیسے زندگی گزار دی
ہے سوچنا تمہیں کہاں نفع کہاں زیان ہے
ہو لا ابالی زندگی تو مقصدِ حیات کیا
نہ خوف موت کا ہو پھر عزیز کس کو جان ہے
جو نعمتیں ملی ہیں شکر ان کا کیا ادا کیا
یہ کل کو پوچھا جائے گا مگر کہاں دھیا ن ہے
یہی ہے سوچ وقت اپنے پاس ہے ابھی بہت
نماز کو تو دیر ہے ابھی ہوئی اذان ہے
ہر ایک دن نیا چڑھے جو لائے وہ خبر یہی
رہے گا تو سدا جواں غلط ترا گمان ہے
طویل شب تھی نیند کی اُٹھیں سحر بھی ہو گئی
ہے طارق اس پہ ٹوٹتی تری غزل کی تان ہے

0
48