بس میں یہ گردشِ حالات نہیں ہوتی اب
ضبط کیوں گرمئِ جذبات نہیں ہوتی اب
روشنی میں تو مجھے چلتے چلے جانا ہے
بیٹھ کر دن میں یونہی رات نہیں ہوتی اب
ہو گا احساں جو چلے آیا کرو خوابوں میں
تم سے ہر روز ملاقات نہیں ہوتی اب
گو بظاہر تو سمندر کی سی طغیانی ہے
دل کے اندر ہے جو وہ بات نہیں ہوتی اب
میں اُڑا جا تا ہوں طوفان میں بادل کی طرح
آگ پر پانی کی برسات نہیں ہوتی اب
زندگی شمع کی مانند پگھلتی دیکھی
جو بچی ہے ،وہ تو سوغات نہیں ہوتی اب
نام بھی اس کا اگر لوں ، تو بہت شور پڑے
خامُشی سُن کے یہ حالات نہیں ہوتی اب
ہار مانی تھی کبھی دل سے یہ اقرار تو ہے
روح کو اپنی کبھی مات ،نہیں ہوتی اب
چھوڑ کر اس کو پنہ اور کہیں کیوں ڈھونڈوں
وہ کسی طور جُدا ذات، نہیں ہوتی اب
یاد کر لیتا ہوں ہر روز اسے ، مانتا ہوں
مجھ سے پابندئ اوقات نہیں ہوتی اب
کیا ہے مرضی تری خود تُجھ سے کہے وہ طارق
اور کیوں تجھ سے مناجات نہیں ہوتی اب

0
30