بات دل کی وہ جیسے جان گئے
میں نہ جو کہہ سکا وہ مان گئے
ڈال کر یوں گئے وہ مجھ پہ نظر
دے کے سر پر وہ سائبان گئے
روگ دل کو لگا لیا جب وہ
جلوۂ حسن دے کے دان گئے
دل کی دھڑکن نے شور اتنا کیا
ہم تو سمجھے ہمارے کان گئے
تھی ہماری ہی اوّل و آخر
وہ سُنا کر جو داستان گئے
اب تو پروا نہیں نتیجے کی
لے کے ایسے وہ امتحان گئے
بات اپنی سمجھ میں آ ہی گئی
پیار کی بول کر زبان گئے
اس محلّے میں اب ہے کیا رہنا
چھوڑ کر وہ چلے مکان گئے
طارق اُٹھو ہوا ہے وقتِ سحر
کان میں دے کے ہیں اذان گئے

6
338
خوبصورت ?

0
بہت شکریہ منیب صاحب!
آپ کا ہی یہ حوصلہ ہے جناب
ورنہ فرصت کہاں ہے لوگوں کو

0
بڑی خوبصورت غزل ہے ڈاکٹر صاحب
خاص طور پر یہ شعر دل میں شور سا مچا گیا

دل کی دھڑکن نے شور اتنا کیا
ہم تو سمجھے ہمارے کان گئے

0
بہت شکریہ شہاب حمزہ صاحب! ممنون ہوں

0
ڈاکٹر صاحب آپ مجھ سے تو یہ شکایت نہیں کر سکتے کہ "فرصت کہاں ہے لوگوں کو"
میں نے شروع میں آپ کے ساتھ بڑا وقت لگایا تھا مگر جب دیکھ لیا کہ آپ مجھ سے سیکھنا نہیں چاہتے تو میں بھی چپ ہو رہا تھا،

0
جی راشد صاحب! کل ہی میں سوچ رہا تھا آپ کی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں آرہا ۔ مثبت تنقید کے لئے تو سرِ تسلیم خم ہے
تیرے لہجے میں سہولت نہ سہی
ہمیں برداشت رعونت نہ سہی

0