جہاں جہاں بھی تُو ٹھہرا ، جہاں چلا ہو گا
وہی تو قبلہ و کعبہ ، مرا رہا ہو گا
میں ہو گیا جو معطّر ، تری محبّت سے
زمانہ اب مری خوشبو سے ، آشنا ہو گا
سہانے خوابوں سے میں نے ، بسائی جو دنیا
تو اس میں ہر جگہ تُو ہی تو پھر رہا ہو گا
وہ آج مجھ سے ملا جب تو کچھ خفا سا تھا
غلط کسی نے مرے بارے ، کہہ دیا ہو گا
مری وفا میں اسے کب ہے کوئی داغ ملا
صفائی دل کی جو کی ، وقت کچھ لگا ہو گا
چمن میں ایک سے بڑھ کر ہے ایک گل لیکن
الگ وہ ان میں ، نمایاں بہت ، دِکھا ہو گا
یہ تم جو آہٹیں اپنے قریب سُنتے ہو
بتا رہی ہیں ، وہ نزدیک آ گیا ہو گا
کہاں پہ رہ گئے طارق ، کہ اتنی دیر ہوئی
تمہارا قافلہ شاید ، نکل چکا ہو گا
֎֎֎

0
18