جہاں جہاں بھی تُو ٹھہرا ، جہاں چلا ہو گا |
وہی تو قبلہ و کعبہ ، مرا رہا ہو گا |
میں ہو گیا جو معطّر ، تری محبّت سے |
زمانہ اب مری خوشبو سے ، آشنا ہو گا |
سہانے خوابوں سے میں نے ، بسائی جو دنیا |
تو اس میں ہر جگہ تُو ہی تو پھر رہا ہو گا |
وہ آج مجھ سے ملا جب تو کچھ خفا سا تھا |
غلط کسی نے مرے بارے ، کہہ دیا ہو گا |
مری وفا میں اسے کب ہے کوئی داغ ملا |
صفائی دل کی جو کی ، وقت کچھ لگا ہو گا |
چمن میں ایک سے بڑھ کر ہے ایک گل لیکن |
الگ وہ ان میں ، نمایاں بہت ، دِکھا ہو گا |
یہ تم جو آہٹیں اپنے قریب سُنتے ہو |
بتا رہی ہیں ، وہ نزدیک آ گیا ہو گا |
کہاں پہ رہ گئے طارق ، کہ اتنی دیر ہوئی |
تمہارا قافلہ شاید ، نکل چکا ہو گا |
֎֎֎ |
معلومات