ہم دیارِ یار میں بیٹھے ، سُخن کہتے رہے |
اِس کو احسانِ خدائے ذُو الࣿمِنَن کہتے رہے |
رنگ و خوشبو سے مزیّن ہے جو اسلوبِ زباں |
پھول کلیوں سے بھرا اس کو چمن کہتے رہے |
رات دن محنت ہمارا ہو گیا معمول یہ |
ہو گئی ہے کام کی ایسی لگن ، کہتے رہے |
بات حکمت سے جو کی اس پر پذیرائی ملی |
تلخ سچ بھی ، سر پہ ہم باندھے کفن ، کہتے رہے |
چاشنی لہجے کی گرچہ ہر جگہ ملتی نہیں |
پھر بھی جو کہنا تھا وہ خندہ دہن ، کہتے رہے |
مہرباں ایسے بھی تھے ، کرتے رہے تنقید جو |
چل رہے ہو تم الگ سب سے چلن ، کہتے رہے |
جب کبھی تعریف کر دی ہے کسی استاد نے |
ہم ہمیشہ اِس کو اُن کا حُسنِ ظن کہتے رہے |
ہم نے طارق جو کہا بے شک ہے سب اس کی عطا |
دل میں جو ڈالا گیا ، ہو کر مگن ، کہتے رہے |
معلومات