دل میں سرمایہ قناعت کا لگائے رکھا
کسی حسرت نے نہیں ڈیرہ جمائے رکھا
آستینوں میں کبھی جھانک کے دیکھا ہی نہیں
جانے کن سانپوں کو ہم نے تھا چھپائے رکھا
دشمنوں سے تو بھلائی کی توقّع ہی نہ تھی
دوستوں نے بھی ہمیں خود سے پرائے رکھا
دھوپ نے پیچھا کیا جب کبھی صحراؤں میں
اس نے بادَل کو مرے سر پہ ہے چھائے رکھا
ہم تو اس بزم میں جاتے ہوئے گھبراتے تھے
حوصلہ اس نے دیا دل کو بڑھائے رکھا
تھام کر ہاتھ مرے ساتھ وہ کچھ دیر چلا
ایسے تھا جیسے فرشتوں نے اٹھائے رکھا
یاد میں اس کی تجھے نیند نہ آئی طارق
رات بھر اس نے بھی مشعل کو جلائے رکھا

0
64