دل کسی کے جو نام کر بیٹھے
کام اپنا تمام کر بیٹھے
نشّہ ہے یا سرور آنکھوں میں
نوش کیسا یہ جام کر بیٹھے
بام پر وہ دکھائیں گے جلوہ
اُس گلی میں قیام کر بیٹھے
عکس دل میں وہی نظر آئے
شیشہ خود کو مدام ، کر بیٹھے
اب وہیں ہیں جہاں وہ لے جائے
ہاتھ جس کے زُمام کر بیٹھے
ہم سے تنہائی ہی مخاطب تھی
ہم یونہی ہم کلام کر بیٹھے
رکھ دی تعزیر نام لینے پر
وہ خدا کو بھی رام کر بیٹھے
کہہ دو ، صیّاد سے کہ خود کو ہی
یہ نہ ہو زیرِ دام کر بیٹھے
ہم پہ الزام ہے ، سرِ راہے
طارق اُس کو سلام کر بیٹھے

1
64
پہلے چار اشعار عمدہ ہیں۔

0