دل کسی کے جو نام کر بیٹھے |
کام اپنا تمام کر بیٹھے |
نشّہ ہے یا سرور آنکھوں میں |
نوش کیسا یہ جام کر بیٹھے |
بام پر وہ دکھائیں گے جلوہ |
اُس گلی میں قیام کر بیٹھے |
عکس دل میں وہی نظر آئے |
شیشہ خود کو مدام ، کر بیٹھے |
اب وہیں ہیں جہاں وہ لے جائے |
ہاتھ جس کے زُمام کر بیٹھے |
ہم سے تنہائی ہی مخاطب تھی |
ہم یونہی ہم کلام کر بیٹھے |
رکھ دی تعزیر نام لینے پر |
وہ خدا کو بھی رام کر بیٹھے |
کہہ دو ، صیّاد سے کہ خود کو ہی |
یہ نہ ہو زیرِ دام کر بیٹھے |
ہم پہ الزام ہے ، سرِ راہے |
طارق اُس کو سلام کر بیٹھے |
معلومات