آنکھ سے آنکھ ملاتا ہوں میں
کس طرح دل کو جلاتا ہوں میں
ہجر کی رات میں، میں جانتا ہوں
کیا قیامت یہاں اٹھاتا ہوں میں
جانِ جاں باؤلے دل کو اپنے
تری تصویر سے بہلاتا ہوں میں
تری سوچوں میں کھو کر اکثر ہی
خود کو بھی بھول ہی جاتا ہوں میں
تجھ میں کیا جانے کیا رمز ہے جاں
خود سے ہی تجھ کو چھپاتا ہوں میں
اب نہ کوئی کسی سے مدعا ہے
رسماً ہی ہاتھ ملاتا ہوں میں
اب تو دشمنِ جاں کو بھی اپنے ہاں
خوشی سے گلے لگاتا ہوں میں
وہ جب آتے ہیں دلِ گمشدہ کو
کہیں سے ڈھونڈ کے لاتا ہوں میں

0
57