لے گیا دل سرِ محفل تھا وہ رہزن جیسے
اس سے پہلے نہ ہوا اس کا تھا درشن جیسے
اس کی آہٹ کہیں نزدیک سنائی دی ہے
تیز ہوتی ہے مرے دل کی یہ دھڑکن جیسے
جب مجھے چلنا پڑا جلتے ہوئے رستوں پر
وہ دعا بن کے رہا دھوپ میں چلمن جیسے
زندگی یوں بھی کئی لوگ بِتا دیتے ہیں
بس سجا رہتا ہے الماری میں برتن جیسے
جب مرے دوست نے قصے وہ پرانے چھیڑے
یوں لگا ، لوٹ کے آیا مرا بچپن جیسے
وہ جو الفاظ خزانوں ہی کی صورت اترے
سب بنی اس کی تصاویر ہیں مخزن جیسے
چاند جب بھی کبھی آ کاش سے اُترا دل میں
دل کا اس نور سے روشن ہوا آنگن جیسے
جب بسا دل میں وہ اپنے ، تو لگا یوں طارق
ایک ویرانے میں پھولوں بھرا گلشن جیسے

0
98