نور وہ ماہ تاب سا ہو گا
اس کا چہرہ کتاب سا ہو گا
جب چڑھا وہ مہِ چہار دہم
بدر وہ آفتاب سا ہو گا
معرفت ہو گی اس کی باتوں میں
علم و فن لا جواب سا ہو گا
وہ جو اترے گا پھر منارے پر
کام اس کا شتاب سا ہو گا
لے کے روشن نشان آئے گا
دور بیں وہ عقاب سا ہو گا
آسماں بھی نشاں دکھائے گا
مہر ومہ پر نقاب سا ہو گا
کشتئی نوح ہو گی دنیا میں
اور اک سیلِ آب سا ہو گا
کوئی کیڑا زمیں پہ پھیلے گا
وہ بھی جیسے عتاب سا ہوگا
پھر بھی لوگوں کو ماننے میں اسے
کوئی حائل حجاب سا ہو گا
جگ میں پیغام اس کا پہنچے گا
جب نہ مانے عذاب سا ہو گا
مان کر اس کو امن پائیں گے
ان کا آساں حساب سا ہو گا
عاقبت ان کی سنورے گی طارق
باقی عالم سراب سا ہو گا

1
130
پسندیدگی کا بہت شکریہ جناب عامر رضا حاتم صاحب

0