جنگل نہ ہو گا شور مچائیں گے پھر کہاں |
شہروں کو وحشیوں سے بچائیں گے پھر کہاں |
چاروں طرف فصیل کھڑی کر بھی لیں اگر |
خود کو درونِ شہر چھپائیں گے پھر کہاں |
کھڑکی ہوا کے رُخ پہ جو ہے بند گر ہوئی |
جھونکے ہوائے تازہ کے کھائیں گے پھر کہاں |
مرضی سے بادباں کو اُڑا لے گئی ہوا |
ساحل پہ اپنی کشتی لگائیں گے پھر کہاں |
سب اپنے پاپ دھونے چلے آئے ہیں مگر |
میلی ہوئی جو گنگا نہائیں گے پھر کہاں |
میں نے اسے کہا تھا کہ دو چار دن ہیں اور |
اس نے کہا کہ آ گئے جائیں گے پھر کہاں |
عادت پڑی ہوئی ہے ہمیں انتظار کی |
چاہیں بھی لوگ ہم سے چُھڑائیں گے پھر کہاں |
طارق فرازِ کوہ سے گرتے وہ آبشار |
ہوں گے جو خشک نغمے سُنائیں گے پھر کہاں |
معلومات