دست و بازو کہیں سر کہیں دھر گئے
کتنی ماؤں کے لختِ جگر مر گئے
پورے شہرِ پشاور پہ اک نُور ہے
سیّد ا لا نبیا آج گھر گھر گئے
ننّھی خولہ کو کیسے مناصب ملے
بابِ جنّت پہ لینے ابوذر گئے
آؤ آؤ شہیدو سلام السّلام
بازو کھولے ہوئے شاہِ اصغر گئے
تم نے جیتی ہے بازی شہیدو سنو
مائی بابا کو جنّت نذر کر گئے
جاؤ دوزخ میں جلتے رہو قاتلو
جس طرف اور باقی ستم گر گئے
جان لے کر جہنّم کا سودا کیا
جان دے کر وفاؤں کا دم بھر گئے
مائیں روئیں نہ ہرگز خدا کے لئے
شیرِ مادر سے بیٹے وفا کر گئے
سفرِ کربل سے سفرِ پشاور تلک
راہِ عشق و وفا مختصر کر گئے
ہاتھ لکھتا رہا اشک بہتے رہے
قصّہ خوانی کے نوحے اثر کر گئے

59