سجدہ ہائے آخرِ شب ، اشک مژگاں پر رواں
حالِ دل لب پر ہو جاری ، سینے میں آتش فشاں
محوِ خوابِ حُسنِ جاناں ہو کے جانا اس قدر
ہیں تلاطم خیز جذبے ایک بحرِ بیکراں
آدمیّ گر، انس رکھے گا خدا اور خلق سے
تب کہیں انسان کہلانے کے قابل ہو میاں
ہولے ہولے آنکھ سے پردے جو کچھ اٹھنے لگے
اب نظر آنے لگے ہیں دشمنوں کو بھی نشاں
آ گئے تھے ہم تو محفل میں ذرا عجلت کے ساتھ
دل میں آیا ، دیر ہو جائے نہ چل دے کارواں
ہم بڑے ارمان لے کر آ گئے اس شہر میں
اب تِرے دیدار سے ہوں گے مشرّف سب یہاں
دھیرے دھیرے دل ہمیں نغمے سناتا ہی رہے
اک مدھر دُھن میں جو گائے کلمۂ قدوسیاں
طارق اب سارے تعلّق اپنے رب سے جوڑ لو
یہ محبّت چھوڑ کر تم اور جاؤ گے کہاں

0
49