نہ دل اگر کسی عشقِ بتان سے گزرے
یقین کیسے ہو وہم و گمان سے گزرے
ہم اور ہی کسی دنیا میں اب تو رہتے ہیں
کہ ایک عر صہ ہوا اس جہان سے گزرے
وہ خواہشوں کے سبھی دائروں سے آگے ہے
اسے وہ پائے جو کون و مکان سے گزرے
نہیں ہے سچ کے مقابل پہ جھوٹ راس آیا
کچھ ایسے زندگی کے امتحان سے گزرے
ہمارے قول و عمل میں تضاد ہے باقی
گمان یہ ہے کہ ہم تو گیا ن سے گزرے
جسے ہو فکر کہ آگے حساب دینا ہے
وہ ہر قدم پہ یہاں سے دھیا ن سے گزرے
نہ بے خبر ہوں اگر اس سے ہم پنہ مانگیں
ہماری ہر گھڑی امن و امان سے گزرے
یہی سلوک ہے طارق خدا کا بندوں سے
زمین پر جو جھکے آسمان سے گزرے

0
143