زیست آسان سمجھ بیٹھے تھے نادانی سے |
آجکل موت بھی آتی نہیں آسانی سے |
چینِ دل مال کمانے سے نہیں ہوتا نصیب |
کب سکوں آئے ہے اشیا کی فراوانی سے |
وہ جو سمجھے تھے انہیں فکر نہیں ہے کوئی |
دیکھو کیا حال ہوا ان کا پریشانی سے |
شہر کے طور طریقے اگر اپنا بھی لو |
دیکھتے پھر بھی ہیں کچھ لوگ تو حیرانی سے |
وہ جو الزام ہمیں دیتے تھے رسوائی کا |
خود وہ نادم ہوئے بیٹھے ہیں پشیمانی سے |
اب تو صحرا کو بھی چھوڑے ہوئے مدّت گزری |
دل ہے بے چین ہُوا شہر کی ویرانی سے |
وہ جہاں بھی ہو الگ سب سے نظر آتا ہے |
میں نے پہچانا اسے چہرے کی تابانی سے |
طارق آزادیٔ دل خوب ہے لیکن اس کو |
باندھ کر رکھو اصولوں کی نگہبانی سے |
معلومات