زیست آسان سمجھ بیٹھے تھے نادانی سے
آجکل موت بھی آتی نہیں آسانی سے
چینِ دل مال کمانے سے نہیں ہوتا نصیب
کب سکوں آئے ہے اشیا کی فراوانی سے
وہ جو سمجھے تھے انہیں فکر نہیں ہے کوئی
دیکھو کیا حال ہوا ان کا پریشانی سے
شہر کے طور طریقے اگر اپنا بھی لو
دیکھتے پھر بھی ہیں کچھ لوگ تو حیرانی سے
وہ جو الزام ہمیں دیتے تھے رسوائی کا
خود وہ نادم ہوئے بیٹھے ہیں پشیمانی سے
اب تو صحرا کو بھی چھوڑے ہوئے مدّت گزری
دل ہے بے چین ہُوا شہر کی ویرانی سے
وہ جہاں بھی ہو الگ سب سے نظر آتا ہے
میں نے پہچانا اسے چہرے کی تابانی سے
طارق آزادیٔ دل خوب ہے لیکن اس کو
باندھ کر رکھو اصولوں کی نگہبانی سے

0
62