زندگی ہے یہ امتحان ہی کیا |
لب پہ اٹکی رہے گی جان ہی کیا |
جلوۂ حسن بھی کبھی ہو گا |
یا رہے گا فقط گمان ہی کیا |
جاتے جاتے وہ کر گئے احساں |
حسرتیں دے گئے ہیں دان ہی کیا |
ہم کہاں جائیں لے کے محرومی |
اک مخالف ہے آسمان ہی کیا |
ہم کو دل سے نکال پھینکا جب |
ٹُوٹا رشتہ تو خاندان ہی کیا |
عشق پر ہی غرور ہوتا ہے |
عاشقوں کی ہے اور شان ہی کیا |
کر سکے تم نہ جب حفاظت پھر |
شہر میں امن کیا امان ہی کیا |
کچھ تو کہتے مری حمایت میں |
جس پہ تالے ہوں وہ زبان ہی کیا |
دوسرا اک جہان اور بھی ہے |
ہم پہ آساں تھا یہ جہان ہی کیا |
معذرت اچھا تھا کہ کر لیتے |
حسن اُس کا ہوا بیان ہی کیا |
طارق اپنے ہی گھر کو لوٹ چلیں |
دل جو خالی ہو پھر مکان ہی کیا |
معلومات