ہر ایک ہماری جو روایت ہے پرانی |
رگ رگ میں ہوئی اب تو سرایت ہے پرانی |
ہم مل نہ سکے ان کو گلے جب ، ہوئے مایوس |
امید تھی ان کو یہ ہدایت ہے پرانی |
ہم پر تو کوئی خاص عنایت کی نظر ہے |
ہر روز جو ہوتی ہے ، شکایت ہے پرانی |
ہم نے جو بیاں کر دی ، حکایت تو ہے شکوہ |
کہتے ہیں جو کی بات، نہایت ہے پرانی |
لفظوں کے چناؤ کی فقط بات نہیں ہے |
بولیں بھی تو لفظوں کی کفایت ہے پرانی |
کہنے کو حسد ان کو بھلا کا ہے کو ہو گا |
حاصل ہے جو ان کو وہ حمایت ہے پرانی |
اس دور میں رشتہ یہ محبّت کا بڑھا ہے |
ہر چند ملی ہم کو ، ولایت ہے پرانی |
طارق جو سمجھ پایا وہ مضمون نیا ہے |
توحید کی اتری ہے جو آیت ہے پرانی |
معلومات