ان کی جو سادگی نہیں جاتی |
بے خودی میری بھی نہیں جاتی |
دار کا مرحلہ ہوا درکار |
یوں ہی دیوانگی نہیں جاتی |
ہے اضافہ ہی اس کی نخوت میں |
اور مری بے بسی نہیں جاتی |
آپ کے غم نے کر دیا مجبور |
زندگی یوں تو لی نہیں جاتی |
کوئی بیٹھا ہے میرے پہلو میں |
کاش کہ یہ گھڑی نہیں جاتی |
کارفرما کسی کی چال رہی |
ورنہ غم سے خوشی نہیں جاتی |
جب سے وہ دل میں آ کے بیٹھا ہے |
بے کلی ثانی کی نہیں جاتی |
مئے غم اب مجھے نہ دے ساقی |
اتنی پی لی کہ پی نہیں جاتی |
کتنے مظلوم جیل تک پہنچے |
آپ کی منصفی نہیں جاتی |
دل سمجھتا ہے دل کی باتوں کو |
ہر حقیقت کہی نہیں جاتی |
ابرِ گیسو و زلفِ کالی گھٹا |
معلومات