رُخِ گل کو چھو کر گزرتی ہوا
مہک دے گئی ناز کرتی ہوا
ہوں آنکھیں یہ ٹھنڈی انہیں جب لگے
ترے گھر سے آئی سنورتی ہوا
یہ طوفان دل میں بپا جب کرے
نہیں پھر محبّت کی ڈرتی ہوا
جوانی کی مستی میں نغمہ سرا
مدُھر ساز میں سوز بھرتی ہوا
اُٹھا کر یہ چہرے سے تیرے نقاب
تجھے دیکھ کر ہے ٹھہرتی ہوا
اُڑاتی ہے زلفوں کے یہ پیچ و خم
ہے عاشق کے دل میں اترتی ہوا
خبر لے کے جاتی ہے چاروں طرف
رقیبوں کے ہے کان بھرتی ہوا
تجھے دیکھ پاؤں نہ جب تک لگے
کہ ہر سانس ہے آہ بھرتی ہوا
مبارک جو آواز لے کر چلے
وحی ساتھ لے کر اترتی ہوا
ہے طارق فلک پر مجھے لے اُڑی
کہاں دیکھیں اب پاؤں دھرتی ہوا

0
2
147
واااہ کیا کہنے زبردست

0
بہت نوازش ذیشان خان خاکی صاحب!

0