میں سردابوں میں چھپ جاؤں
میں صحراؤں میں کھو جاؤں
میں کہساروں پہ چڑھ جاؤں
کہیں بے نام ہو جاؤں
میں تلواروں کے سائے میں
میں انگاروں پہ سو جاؤں
مصیبت ڈھونڈ لیتی ہے
کسی بھی اہم منصب پر
کبھی مامور ہو جاؤں
کہیں مشہور ہو جاؤں
ذرا مسرور ہو جاؤں
یا پھر مغرور ہو جاؤں
نشے میں چور ہو جاؤں
چراغِ طور ہو جاؤں
مصیبت ڈھونڈ لیتی ہے
کہیں درویش ہو جاؤں
کہیں راہب میں بن جاؤں
پہن کے ایک دن گھنگرو
میں بازاروں میں رل جاؤں
کلیسا کے کٹھہرے میں
گنہ میں اپنے گنواؤں
میں چاہے دیر کو جاؤں
میں چاہے حرم ہو آؤں
مصیبت ڈھونڈ لیتی ہے
وہ مجھ بن رہ نہیں سکتی
جدائی سہہ نہیں سکتی

0
128