کیا کیا نہ روپ اس کے لیے دھارتے رہے |
جیتے تو جان بوجھ کے بھی ہارتے رہے |
دینے پہ دل نہیں کسی کو اختیار جب |
کیوں سر پہ کفِ دست یونہی مارتے رہے |
سب کچھ تو اپنے پاس تھا اس کا دیا ہوا |
سو جان و دل اسی پہ ہی تو وارتے رہے |
ناراض ہو نہ جائے کہیں مہرباں خدا |
شیطاں کو سوچ کر یہی دھتکارتے رہے |
شہروں کی خامشی تھی کہ تنہائیوں کا شور |
تیرے خیال باعثِ افکار تھے رہے |
شاید کوئی بچائی ہو گی ہم نے زندگی |
اکثر تو کھیل زندگی کا ہارتے رہے |
طارق ہمارے دوستوں نے ساتھ کب دیا |
سنتے رہے کِیا تو یہ ہنکارتے رہے |
معلومات