کیا کیا نہ روپ اس کے لیے دھارتے رہے
جیتے تو جان بوجھ کے بھی ہارتے رہے
دینے پہ دل نہیں کسی کو اختیار جب
کیوں سر پہ کفِ دست یونہی مارتے رہے
سب کچھ تو اپنے پاس تھا اس کا دیا ہوا
سو جان و دل اسی پہ ہی تو وارتے رہے
ناراض ہو نہ جائے کہیں مہرباں خدا
شیطاں کو سوچ کر یہی دھتکارتے رہے
شہروں کی خامشی تھی کہ تنہائیوں کا شور
تیرے خیال باعثِ افکار تھے رہے
شاید کوئی بچائی ہو گی ہم نے زندگی
اکثر تو کھیل زندگی کا ہارتے رہے
طارق ہمارے دوستوں نے ساتھ کب دیا
سنتے رہے کِیا تو یہ ہنکارتے رہے

1
64
پسندیدگی کا شکریہ حامد زبیر صاحب!

0